اہم نکات
1۔ پیغمبر محمد اور امت کی بنیاد
اسلام میں سماجی انصاف ایک نہایت اہم فضیلت تھی۔
ایک انقلابی نظریہ۔ ساتویں صدی کی عربی جزیرہ میں، پیغمبر محمد ﷺ کو وہ وحی ملی جس نے قرآن کی صورت اختیار کی اور مکہ کے سماجی بحران کا حل پیش کیا۔ وہاں قبائلی روایات جو کمزوروں کی مدد پر مبنی تھیں، تجارتی دولت کی وجہ سے کمزور ہو رہی تھیں۔ ان کا پیغام خدا کے بارے میں کوئی نئی تعلیم نہیں تھا بلکہ عربوں کو ابراہیم کے اصل دین کی طرف لوٹنے کی دعوت تھی، جس میں انصاف، مساوات اور ہمدردی کو ہر فرد کے لیے اہمیت دی گئی تھی۔ قرآن نے دولت کی تقسیم اور ایک ایسی امت کی تشکیل پر زور دیا جو خدا کی رضا کے تابع ہو، نہ کہ خونی رشتوں کی بنیاد پر۔
ایک نئی امت کی تشکیل۔ مکہ میں ظلم و ستم کا سامنا کرتے ہوئے، محمد ﷺ اور ان کے پیروکار 622 عیسوی میں یثرب (مدینہ) ہجرت کر گئے، جو اسلامی تاریخ کا آغاز تھا۔ یہاں انہوں نے ایک انقلابی "سپرتب" قائم کی جو خاندانی تعلقات کی بجائے مشترکہ نظریے پر مبنی تھی، اور مسلمانوں، مشرکین اور یہودیوں کو ایک معاہدے کے تحت متحد کیا۔ مسجد کو زندگی کے تمام پہلوؤں کا مرکز بنایا گیا، جو اسلام کے مقدس اور دنیاوی کو یکجا کرنے کے تصور کی عکاسی کرتی تھی، اور معاشرے میں توحید کی کوشش تھی۔
جدوجہد کے ذریعے امن۔ ابتدائی مدینہ کی کمیونٹی کو مکہ کی طرف سے اور اندرونی اختلافات سے شدید خطرات لاحق تھے۔ محمد ﷺ کی قیادت میں بدر اور خندق کی جنگوں جیسی حکمت عملیوں نے امت کی بقا کو یقینی بنایا۔ 630 عیسوی میں مکہ کا پرامن قبضہ، خانہ کعبہ کی تطہیر اور حج میں مشرکوں کے رسوم کا انضمام، عرب کے قبائلی جنگوں کا خاتمہ اور اسلام کے تحت امن قائم کرنے کا باعث بنا۔
2۔ راشدین خلفاء اور تیز رفتار فتوحات
جب عیسائی یسوع کے صلیب پر مرنے کو شکست سمجھتے تھے، مسلمان سیاسی کامیابی کو الہی حضور کی علامت اور ان کی زندگیوں میں خدا کی موجودگی کا ثبوت سمجھتے تھے۔
خلافت اور اتحاد۔ محمد ﷺ کے انتقال کے بعد 632 عیسوی میں، امت کو قیادت کے مسئلے کا سامنا تھا۔ ابو بکر کو پہلا خلیفہ منتخب کیا گیا، جنہوں نے قبائلی بغاوتوں کے خلاف امت کی وحدت کو ترجیح دی۔ ان کی کامیابی نے ایک مسلم ریاست کے تصور کو مضبوط کیا، اگرچہ علی کے حق قیادت کے دعوے نے مستقبل میں اختلافات کی بنیاد رکھی۔
تیز رفتار توسیع۔ دوسرے خلیفہ عمر بن الخطاب کے دور میں، عربوں کی جارحانہ توانائی کو منظم کرنے اور امت کی وحدت برقرار رکھنے کے لیے بازنطینی اور ساسانی سلطنتوں کے خلاف مہمات شروع ہوئیں۔ یہ مہمات مذہبی جنگیں نہیں بلکہ عملی غزوے تھے جنہوں نے دو دہائیوں میں شام، فلسطین، مصر اور فارس کو فتح کیا۔ یہ کامیابیاں دونوں سلطنتوں کی کمزوری اور مقامی عوام کی حکمرانوں سے ناراضی کی وجہ سے ممکن ہوئیں۔
نیا عالمی نظام۔ فتوحات نے ایک وسیع سلطنت قائم کی جسے مسلمان خدا کی عنایت اور قرآن کی وعدہ کردہ خوشحالی کی تصدیق سمجھتے تھے۔ عمر نے عرب فوجیوں کے لیے امصار قائم کیے تاکہ انہیں مقامی آبادی سے الگ رکھا جا سکے اور ان کی عرب شناخت محفوظ رہے۔ غیر مسلموں (ذمیوں) کو مذہبی آزادی دی گئی اور وہ جزیہ ادا کرتے تھے، جو قرآن کی "اہل کتاب" کے احترام اور عرب روایت کی عکاسی تھی۔
3۔ پہلی خانہ جنگی (فتنہ) اور اس کے دیرپا اختلافات
اسلام قبول کرنے والے پہلے مرد اور پیغمبر کے قریبی رشتہ دار کی قتل کو امت کی اخلاقی سالمیت پر سنگین سوالات کے طور پر دیکھا گیا۔
قیادت کا بحران۔ 656 عیسوی میں تیسرے خلیفہ عثمان کی فوجیوں کے ہاتھوں شہادت نے امت کو پہلی خانہ جنگی (فتنہ) میں دھکیل دیا، جو آزمائش اور فتنے کا دور تھا۔ علی ابن ابی طالب کو خلیفہ تسلیم کیا گیا، مگر عثمان کے قاتلوں کو سزا نہ دینے کی وجہ سے طاقتور گروہ، جن میں عائشہ اور اموی خاندان شامل تھے، علی سے دور ہو گئے۔
تنازعہ اور مصالحت۔ جنگیں جیسے جنگ جمل اور جنگ صفین ہوئیں، اور ثالثی کی کوششیں ناکام رہیں، جس سے اختلافات گہرے ہوئے۔ شام میں مقیم معاویہ نے علی کی حکومت کو چیلنج کیا، اور آخرکار 661 عیسوی میں ایک خوارج انتہا پسند نے علی کو شہید کر دیا۔ علی کے بیٹے حسن نے عارضی طور پر خلافت سنبھالی مگر امن کے لیے اسے معاویہ کو سونپ دیا۔
فرقہ واریت کے بیج۔ فتنہ نے امت کی وحدت کی نازکیت کو ظاہر کیا اور مختلف گروہوں کا ظہور ہوا:
- شیعہ علی: جو قیادت کو علی کے اولاد کا حق سمجھتے تھے جنہیں خاص روحانی علم حاصل تھا۔
- خوارج: جو سب سے زیادہ پرہیزگار مسلمان کو خلیفہ مانتے تھے اور علی و معاویہ دونوں کو ناانصافی کا مرتکب سمجھتے تھے۔
- سنی: جو اتحاد چاہتے تھے اور امن کے لیے معاویہ کی حکومت کو قبول کرتے تھے، بعد میں پیغمبر کی سنت کو امت کی روایت کے طور پر اپنایا۔
یہ دور عدل، اقتدار اور امت کی اخلاقی حالت کو سمجھنے کے لیے بنیادی داستان بن گیا۔
4۔ اموی دور: مرکزیت اور دوسری فتنہ
عبدالملک (685-705) نے اموی حکومت کو دوبارہ قائم کیا اور ان کے آخری بارہ سال پرامن اور خوشحال رہے۔
نظام قائم کرنا۔ معاویہ نے دمشق کو دارالحکومت بنا کر اموی خلافت کی بنیاد رکھی، پہلی فتنہ کے بعد استحکام لایا۔ انہوں نے عرب مسلمانوں کو امصار میں الگ رکھا اور تبدیلی کو روکا تاکہ اشرافیہ کی حیثیت اور ٹیکس کی بنیاد محفوظ رہے۔ سلطنت شمالی افریقہ اور وسطی ایشیا تک پھیل گئی۔
خاندانی کشمکش۔ معاویہ نے اپنے بیٹے یزید کو جانشین مقرر کیا، جس سے دوسری فتنہ (680-692) شروع ہوئی۔ اس دوران کربلا میں حسین کی شہادت ہوئی، جو شیعہ کے لیے ایک اہم واقعہ ہے۔ عبداللہ ابن الزبیر نے حجاز میں بغاوت کی اور پہلی امت کے اصولوں کی بحالی کا مطالبہ کیا۔
مرکزیت اور شناخت۔ عبدالملک نے بغاوتوں کو کچل کر سلطنت کو مرکزیت دی اور ایک منفرد اسلامی شناخت قائم کی۔ عربی زبان سرکاری زبان بنی، اسلامی سکوں کا اجرا ہوا، اور بیت المقدس میں گنبد الصخرہ تعمیر کیا گیا جو اسلام کی عظمت کی علامت ہے۔ اگرچہ امویوں نے سیاسی استحکام اور انتظامی کارکردگی دی، ان کی خودمختار حکومت اور دنیاوی طرز عمل نے پرہیزگار مسلمانوں میں نارضایتی پیدا کی۔
5۔ اسلامی تقویٰ اور شرعی قانون (شریعت) کا عروج
امت کی سیاسی صحت اسلام کی ابھرتی ہوئی تقویٰ کا مرکز تھی۔
ریاست پر سوالات۔ خانہ جنگیوں اور اموی ریاست کی کمزوریوں نے ایک مذہبی تحریک کو جنم دیا۔ قرآن خوان اور زاہد مسلمانوں نے بحث کی کہ مسلمان ہونا کیا ہے اور معاشرہ خدا کی مرضی کے مطابق کیسے ہونا چاہیے۔ یہ فکری تحریک مسیحیت کے مسیحی عقائد کی طرح اسلام کے بنیادی تصورات کو شکل دے رہی تھی۔
فقہ کی ترقی۔ فقہاء نے اسلامی قانون کو منظم کرنا شروع کیا تاکہ مسلمانوں کو قرآن کے اصولوں کے مطابق زندگی گزارنے میں رہنمائی ملے۔ قرآن میں محدود قوانین کی وجہ سے انہوں نے احادیث اور سنت کی مدد سے قانونی اصول وضع کیے۔ ابو حنیفہ اور بعد میں الشافعی نے اجتہاد اور قیاس کی بنیاد پر فقہی مذاہب قائم کیے۔
ایک متبادل ثقافت۔ شریعت صرف قانون نہیں بلکہ قرآن کے مساوات اور عدل کے اصولوں پر مبنی ایک متبادل ثقافت تھی، جو اموی دربار کی اشرافیہ کی تنقید کرتی تھی۔ پیغمبر کی سنت کی تقلید سے مسلمان اس کی مکمل رضا کو اپنے اندر جذب کرتے اور شریعت کو روحانی سفر اور الہی موجودگی کا ذریعہ بناتے۔
6۔ عباسی سلطنت: خودمختاری اور ثقافتی عروج
خلیفہ ہارون الرشید (786-809) کے دور تک تبدیلی مکمل ہو چکی تھی۔
طاقت کا مرکز بدلنا۔ عباسیوں نے امویوں کی ناانصافیوں سے فائدہ اٹھا کر 750 عیسوی میں اقتدار سنبھالا۔ انہوں نے بغداد کو دارالحکومت بنایا، فارسی شاہی روایات کو اپنایا اور ابتدائی امت کے مساواتی نظریے سے دور ہو گئے۔
شاہی شان و شوکت اور کشمکش۔ عباسی دربار نے ہارون الرشید کے دور میں ثقافت، فلسفہ اور فنون میں عروج حاصل کیا، لیکن ان کی خودمختار حکمرانی اور خلیفہ کو "خدا کا سایہ" قرار دینے سے پرہیزگار طبقہ ناراض ہوا۔ اہل حدیث تحریک نے روایت کو اہمیت دی اور دربار کی دنیاوی زندگی پر تنقید کی۔
سنی اسلام کی مضبوطی۔ خلیفہ کی سیکولر حکمرانی کے باوجود، عباسیوں نے علماء کی حمایت کی اور شریعت کو عام مسلمانوں کی زندگی کا قانون بنایا۔ اس دور میں چار سنی فقہی مذاہب کی تشکیل ہوئی اور اشعری مکتب فکر ابھرا، جو عقل اور روایت کو ملاتا تھا۔ نویں صدی کے وسط سے خلافت کی سیاسی زوال کے ساتھ سنی اسلام کی وحدت مضبوط ہوئی۔
7۔ باطنی اسلام: شیعہ، فلسفہ اور تصوف
باطنی مکتب فکر اپنے نظریات کو بدعت نہیں سمجھتے تھے۔
ظاہری سے ماورا۔ سنی اسلام کے ساتھ ساتھ کئی باطنی تحریکیں بھی وجود میں آئیں، جو فکری اور روحانی اشرافیہ کو اپنی طرف متوجہ کرتی تھیں۔ یہ گروہ سیاسی ظلم و ستم کی وجہ سے یا اپنی بصیرت کو عام کرنے کے لیے پوشیدہ رہتے تھے۔ وہ اسلام کے بنیادی ارکان پر عمل کرتے مگر ان کی تشریحات مختلف تھیں۔
سچائی کے متنوع راستے۔
- شیعہ: کربلا کے بعد بارہ امامی شیعہ نے قرآن کے باطن اور مہدی کے تصور پر زور دیا۔ اسماعیلی بھی باطنی علم کے خواہاں تھے مگر سیاسی سرگرمیاں بھی کرتے تھے۔
- فلسفہ: مسلم فلسفیوں نے یونانی عقل کو اسلام کے ساتھ جوڑا، عقل کو الہی سچائی کا ذریعہ سمجھا اور مذہب کو علامتی تعبیر دی۔ الکندی، الفارابی اور ابن سینا نے ایمان اور عقل کو ہم آہنگ کیا۔
- تصوف: اسلامی تصوف نے خدا کے تجربے کے لیے زہد، مراقبہ اور ذکر کو اپنایا۔ رابعہ اور البسطامی جیسے ابتدائی صوفی عشق اور خدا کی موجودگی کے تجربے پر زور دیتے تھے، جبکہ جنید بغداد نے اعتدال پسند راستہ اپنایا۔
روایات کی تکمیل۔ یہ باطنی مکاتب فکر اگرچہ بعض اوقات علماء کی طرف سے مشکوک سمجھے گئے، مگر انہوں نے اسلامی فکر اور روحانیت کو گہرائی دی، خدا، قرآن اور انسان کی حالت کے نئے پہلوؤں کو اجاگر کیا، اور اسلام کی تخلیقی صلاحیت کو ظاہر کیا۔
8۔ مرکزیت کا خاتمہ اور نیا اسلامی نظام (935-1258)
خلافت کے عملی طور پر ختم ہونے کے بعد اسلام نے نئی زندگی پائی۔
مرکزی اقتدار کا خاتمہ۔ دسویں صدی تک عباسی خلافت نے سیاسی کنٹرول کھو دیا، مختلف علاقائی حکمرانوں اور فوجی امراء نے خودمختار ریاستیں قائم کیں۔ خلیفہ محض علامتی حیثیت کا حامل رہا، حقیقی طاقت منتشر ہو گئی، جس سے سیاسی عدم استحکام اور سرحدی تبدیلیاں ہوئیں۔
علاقائی ثقافتوں کا عروج۔ سیاسی مرکزیت کے خاتمے کے باوجود، ثقافتی اور مذہبی ترقی ہوئی۔ کئی متحرک دارالحکومت جیسے قاہرہ، قرطبہ اور سمرقند علمی اور فنون لطیفہ کے مراکز بنے، جہاں اسلامی فکر مقامی روایات کے ساتھ مل کر پروان چڑھی۔
علماء اور صوفیوں کا عروج۔ مضبوط مرکزی حکومت کی غیر موجودگی میں علماء اور صوفیاء نے امت کو یکجا رکھا۔ مدارس نے مذہبی تعلیم کو معیاری بنایا اور علماء کو مقامی سطح پر شریعت نافذ کرنے کا اختیار دیا۔ صوفی تحریک نے عوام میں مقبولیت حاصل کی، طریقتوں نے روحانی رہنمائی اور سماجی رابطے فراہم کیے، جس سے ایک بین الاقوامی اسلامی ثقافت وجود میں آئی۔
9۔ منگولوں کا تباہ کن حملہ اور اس کے اثرات
اگرچہ منگولوں کا حملہ تباہ کن تھا، مگر ان کے حکمران مسلمانوں کے لیے دلچسپی کا باعث تھے۔
ناقابل تصور تباہی۔ تیرہویں صدی میں جنکیز خان اور ہولاکو کی قیادت میں منگولوں نے اسلامی دنیا کے قلب کو تباہ کر دیا، بخارا اور بغداد جیسی شہر کو مسمار کیا، عباسی خلافت کا خاتمہ کیا، اور آبادیوں کا قتل عام کیا۔ یہ ایک صدمہ تھا جسے بہت سے لوگ دنیا کے خاتمے کے طور پر دیکھتے تھے۔
مطابقت اور قبولیت۔ ابتدا کی سختی کے باوجود، منگول سلطنتیں مستحکم ہو گئیں۔ انہوں نے کوئی متضاد مذہب نہیں لایا اور تمام مذاہب کے لیے رواداری اختیار کی۔ تیرہویں اور چودہویں صدی میں منگول حکمران ایران، وسطی ایشیا اور گولڈن ہورڈ میں اسلام قبول کر کے مسلم دنیا کے نئے طاقتور حکمران بن گئے۔
دیرپا اثرات اور نئے رجحانات۔ منگول ریاستیں فوجی نظم پر مبنی تھیں اور عباسیوں اور سلجوقیوں کی طرح سخت حکمرانی کرتی رہیں۔ اس دور میں:
- سنی اسلام میں "اجتہاد کے دروازے" بند ہو گئے اور ماضی کے فقہی فیصلوں کی پابندی کی گئی۔
- بعض علماء نے غیر ملکی اثرات پر تحفظات ظاہر کیے۔
- جلال الدین رومی جیسے صوفی شاعروں نے روحانی کائناتی احساسات کو بیان کیا، جو مسلمانوں کو صدمے سے نمٹنے میں مددگار ثابت ہوئے۔
- ابن تیمیہ جیسے اصلاح پسندوں نے بنیادی اصولوں کی طرف واپسی کی وکالت کی اور موجودہ فقہی و کلامی نظام کو چیلنج کیا۔
10۔ بارود کی سلطنتیں: صفوی، مغل، عثمانی
پندرہویں اور سولہویں صدی کے آخر میں تین بڑی اسلامی سلطنتیں قائم ہوئیں: ایران میں صفوی، ہندوستان میں مغل، اور اناطولیہ، شام، شمالی افریقہ اور عرب میں عثمانی۔
نئی سلطنتوں کا عروج۔ پندرہویں صدی میں بارود کے ہتھیاروں کی ترقی نے حکمرانوں کو بڑے اور مرکزی ریاستیں قائم کرنے کا موقع دیا۔ منگولوں کی فوجی ریاستوں کی مثال پر یہ سلطنتیں شہری انتظامیہ کو شامل کر کے منفرد اسلامی شناخت اپناتی گئیں، جو عباسیوں سے مختلف تھی۔
فرقہ وارانہ اور کثیرالثقافتی ماڈل۔
- صفوی سلطنت (ایران): شاہ اسماعیل نے بارہ امامی شیعہ کو سرکاری مذہب بنایا، جس سے سنیوں سے شدید اختلافات پیدا ہوئے۔ بعد کے شاہوں نے شیعہ مذہب کو مضبوط کیا اور علماء کی حمایت کی، اگرچہ بعض علماء سخت گیر ہو گئے۔
- مغل سلطنت (ہندوستان): بابر نے غیر مسلم اکثریتی آبادی پر حکومت کی۔ اکبر نے مذہبی رواداری کی پالیسی اپنائی اور ہندوؤں کو انتظامیہ میں شامل کیا، جس سے ایک منفرد ہندوستانی-اسلامی ثقافت پروان چڑھی، مگر اورنگزیب نے سخت فرقہ وارانہ پالیسیاں اپنائیں۔
- عثمانی سلطنت (اناطولیہ، مشرق وسطی، شمالی افریقہ، بلقان): سب سے طویل عرصے تک قائم رہنے والی سلطنت، جس کا دارالحکومت استنبول تھا۔ سلطان سلیمان اعظم کے دور میں شریعت کو سرکاری قانون بنایا گیا، جس سے سلطان اور علماء کے درمیان شراکت داری قائم ہوئی، مگر بعد میں علماء ریاست پر منحصر ہو گئے اور تبدیلی کی مخالفت کرنے لگے۔
عروج اور حدود۔ یہ سلطنتیں اسلامی سیاسی اور ثقافتی طاقت کی بلندی تھیں، جو مشرقی یورپ اور ہندوستان تک پھیلی۔ تاہم، زرعی معیشت کی بنیاد پر ان کے اقتصادی اور انتظامی مسائل بھی تھے۔ ان کے اندرونی مسائل، جیسے فرقہ واریت اور متنوع آبادیوں کی حکمرانی، اور مذہبی اداروں کی بڑھتی ہوئی قدامت پسندی نے مستقبل کے چیلنجز کی بنیاد رکھی۔
11۔ مغرب کا ظہور اور نو
آخری تازہ کاری:
جائزے
اسلام: ایک مختصر تاریخ کو مختلف آراء کا سامنا ہے۔ بہت سے نقاد آرمسٹرانگ کی آسان فہم تحریر اور اسلامی تاریخ پر متوازن نقطہ نظر کی تعریف کرتے ہیں۔ تاہم، کچھ ناقدین کا کہنا ہے کہ وہ بہت زیادہ دفاعی رویہ اختیار کرتی ہیں اور پیچیدہ مسائل کو بہت سادہ بنا دیتی ہیں۔ قارئین اس کتاب کی جامع جھلک کو سراہتے ہیں، مگر بعض اسے گہرائی سے خالی پاتے ہیں۔ یہ کتاب اسلام کے بارے میں مغربی غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لیے قابلِ تحسین ہے، اگرچہ کچھ لوگ اسے مذہب کے حق میں جانبدار سمجھتے ہیں۔ مجموعی طور پر، یہ غیر مسلموں کے لیے اسلام کا ایک اچھا تعارفی کتابچہ ہے، تاہم اس کی مختصری اور ممکنہ تعصبات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔